درس بعد

اہل ذکر کی خصوصیات

اہل ذکر کی خصوصیات

درس بعد

موضوع: اخلاقی دروس


تاریخ جلسه : ١٣٩٦/٦/٢٥


شماره جلسه : ۱

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • ذکرخدا کے بھی کچھ اہل ہیں جنہوں نے اسے ساری دنیا کا بدل قراردیا ہے" ،جو بھی نماز پڑھتا ہے ، وہ صاحب ذکر ہے ، اور جو شخص بھی اذکار بیان کرتا ہے اس کابھی ذکر ہے ، حتی کہ اگر کوئی صبح سے رات تک مختلف اذکار رکھتا ہو ، یہ بھی خدا کے ذکر میں شامل ہے ، لیکن ابھی تک وہ اہل ذکر نہیں ہے ، اہل ذکر کی کچھ خصوصیات ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے یہاں پر بیان فرمایا ہے۔

دیگر جلسات

اہل  ذکر  کی  خصوصیات

امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ کی خطبہ نمبر 213 میں ذکر کے بارے میں بہت عمدہ مطالب بیان فرماتے ہیں : وإِنَّ لِلذِّكْرِ لأَهْلًا أَخَذُوه مِنَ الدُّنْيَا بَدَلًا"بیشک ذکرخدا کے بھی کچھ اہل ہیں جنہوں نے اسے ساری دنیا کا بدل قراردیا ہے" ،جو بھی نماز پڑھتا ہے ، وہ صاحب ذکر ہے ، اور جو شخص بھی اذکار بیان کرتا ہے اس کابھی ذکر ہے ، حتی کہ اگر کوئی صبح سے رات تک مختلف اذکار رکھتا ہو ، یہ بھی خدا کے ذکر میں شامل ہے ، لیکن ابھی تک وہ اہل ذکر نہیں ہے ، اہل ذکر کی کچھ خصوصیات ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے یہاں پر بیان فرمایا ہے ، فرماتا ہے :  اہل ذکر کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ذکر کو دنیا کا بدل قراد دیئے ہیں ؛ یعنی دنیا کے پیچھے بدلے ، اس کا پورا ہم و غم یہ ہے ذکر کے میدان میں زیادہ سے زیادہ مصروف رہے ، یہ بولے کہ  ایسا کیا  کام کروں کہ  خدا کی یاد ہمارے دل میں بہت زیادہ گہرا ، زیادہ اور پھیلا ہوا ہو ؟کیا کروں کہ  زیادہ سے زیادہ خدا کی یاد میں رہوں ، اور کیا کروں کہ ہم اپنے آپ کو خدا کے حضور میں قراد دے سکوں ؟پہلے بھی بیان کر چکا ہو ں کہ افسوس کی بات ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں ہماری فکر و سوچ نہیں ہوتی ہے ؛ بہت زیادہ اگر ہمت سے کام لیا تو کسی واجب کو انجام دیا اور کسی حرام کو ترک کر دیا ، عرض ہوا کہ انسان جب ظہر کے نزدیک ہو جائے تو اپنا محاسبہ کر لیں کہ صبح جب نیند سے اٹھ گیا ہے اس وقت سے ابھی ظہر تک کس حد تک ذکر خدا کے وادی میں سیر کیا ہے ؟

آپ ملاحظہ کریں گے کہ یا کوئی چیز نہیں ہے یا بہت ہی ناچیز ہے ، ہمارا ہر دن ایسا ہی ہے ، ہمیں ذکر کے بارے میں کوئی فکر ہی نہیں ہے ، اہل ذکر دنیا کو چھوڑ دیتے ہیں اور ذکر کو دنیا کا بدل قرار دیتے ہیں ، وہ ہمیشہ اس سوچ میں ہوتے ہیں کہ کوئي ایسی فرصت مل جائے جس میں دنیوی اور ظاہری  مشغولیات نہ ہوں ، وہ خود ہو اور اس کا خدا. فَلَمْ تَشْغَلْهُمْ تِجَارَةٌ ولَا بَيْعٌ عَنْه،" اور اب انہیں تجارت یا خریدو فروخت اس ذکر سے غافل نہیں کرسکتی ہے " حتی کہ تجارت اور لین دین کے وقت بھی وہ ذکر میں مشغول ہوتے ہیں ,  یہاں پر آپ علیہ السلام نے اسے اکثر لوگوں کی طرف نسبت دی ہے ؛ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ حتی کہ علم کے موقع پر بھی ، جب ہم درس پڑھا رہے ہیں ،یا درس  سن رہے ہوتے ہیں ، یا مطالعہ کرتے ہیں ، اس وقت بھی خدا کے یاد میں رہے ، یہ چیزیں ہمیں خدا کی یاد سے غافل نہ کرائے، اس بارے میں سوچنا چاہئے کہ انسان جب تجارت کے وقت خدا کی یاد میں نہیں ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے ؟جو شخص تجارت کے شرايط پر عمل نہیں کرتا ہو ، جس کے لئے معاملہ کا صحیح ہونے اور باطل ہونے میں کوئی فرق نہ ہو ؛ اور اسے معاملہ کے فائدہ اور سود میں کوئی فرق نہ ہو،اسے یہ کوئی بات نہ ہو کہ اپنے اس کام سے لوگوں پر ظلم ہو رہا ہے ؛ اگر کوئی لین دین کے وقت صرف اس بارے میں سوچتے ہو کہ اسے کچھ  مال ہاتھ آجائے ، اس کی ثروت میں اضافہ ہو ، اس کا معنی یہ ہے کہ اس تجارت نے اسے خدا کے یاد سے دور کیا ہے ، علم میں بھی ایسا ہی ہے ، اگر کوئی علم میں بھی اس چیز کے پیچھے ہو کہ میں خود کچھ بات کر سکوں ، انصاف سے کام نہ لے ، کسی اور کی تحقیقات کو اپنے نام پر لکھوا دیں ، یا کسی نے کوئی اچھی بات کی ہے اور یہ شخص باطنا اسے قبول بھی کر لیتا ہے لیکن ظاہر میں اسے خراب کرنا چاہتا ہے ، یا اس سے بھی آگے بڑھ کر علم اور طلبہ ہونے کو مال کسب کرنے کا وسیلہ قرار دیں ، کہ علم کے ذریعہ کمانے لگے ، کہ روایات میں اس کی کتنی مذمت ہوئي ہے ،دینی علوم کی خصوصیات میں سے ایک جو اسے دوسرےتمام علوم سے جدا کرتا ہے یہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ اسے رزق اور معیشت کا وسیلہ قرار نہ دے ، ہمارا یہ اعتقاد ہے اور اس بارے میں بہت ساری روایات بھی ہیں کہ خداو خود طالب علم کے رزق و روزی کا کفیل ہے ۔

یہ ایسی چيزیں ہیں جو انسان کو ذکر سے دور کر دیتا ہے ، ان چیزوں کو دور رکھنے کےلئے بہت زیادہ زحمت کرنے کی ضرورت ہے ، حتی کہ یہ جو میں ابھی آپ کے لئے بیان کر رہاہوں ، اس میں واقعا پہلا ہدف اور مقصد اپنے آپ کو ایک تذکر دینا اور خود کو متنبہ کرانا ہے ؛ لیکن اسی تقریر کے دوران بھی میں خدا کے ذکر سے غافل ہو سکتا ہو ں ، شیطان اتنا زیادہ قدرت رکھتا ہے اور وہ انسان کے اندر نفوذ پیدا کر سکتا ہے کہ جب وہ نماز کی بہترین اوصاف کو بیان کر رہا ہو اسی وقت اسے نماز سے غافل کرا دیتا ہے ، ذکر خدا کے باے میں بہترین بیان کو امیر المومنین علیہ السلام سے ہم پڑھتے ہیں لیکن خود اس سے غافل ہیں ، پس اہل ذکر وہ لوگ ہیں جو ذکر کو دنیا کا بدل قرار دیتے ہیں اور دنیا کا کام کاج اسے اپنے میں مشغول رکھ کر خدا کے ذکر سے غافل نہیں کرتا ۔

يَقْطَعُونَ بِه أَيَّامَ الْحَيَاةِ ، " یہ اس کے سہارے زندگی کے دن کاٹتے ہیں "اور اپنی  پوری زندگی کو ہی اسی راستہ پر لگا دیتاہے ، کتنی لذت ہے اس بات میں کہ کوئی انسان یہ بولے میں 24 گھنٹے میں سے اتنا وقت خدا کے ذکر میں گزارتا ہوں ، زندگی کو خدا کے ذکر کے ساتھ گزارتا ہے ؛یعنی ان کا زیادہ تر کام ذکر خدا ہے ؛ ان کا ہم و غم اور تمام فکر ذکر ہے ؛ جب وہ سو جاتا ہے اور جب وہ اٹھ جاتا ہے ، ہمیشہ خدا کے ذکر میں ہوتے ہیں ، ويَهْتِفُونَ بِالزَّوَاجِرِ عَنْ مَحَارِمِ اللَّه فِي أَسْمَاعِ الْغَافِلِينَ" اور غافلوں کے کانوں میں محرمات کے روکنے والی آوازیں داخل کر دیتے ہیں"جو لوگ محرمات الہی کا مرتکب ہوتے ہیں ان پر چیختے ہیں ؛ یعنی اہل ذکر وہ لوگ ہیں کہ وہ حرام کام انجام پاتے ہوئے نہیں دیکھ  سکتے ، کہیں جب بیٹھے ہوں اور وہاں پر غیبت کرے، وہاں ایک  کونہ میں کوئی شخص  بیٹھا  ذکر خدا میں مشغول ہے ؛ وہ اسی ذکر کے ذریعہ بتا دیتا ہے کہ میں آپ کے غیبت میں شامل نہیں ہوتا ہوں ؛ کیونکہ میں اہل ذکر ہوں ؛ لیکن ایسے شخص کو یہ بتا دینا چاہئے کہ تم اہل ذکر نہیں ہو ، کیونکہ جو اہل ذکر ہے وہ یہ تحمل نہیں کرسکتا  کہ اس کے ساتھ میں کوئی حرام کام انجام پائے ،حرام کوئی کام انجام پاتے ہوئے دیکھ کر وہ چیختا چلاتا ہے ، میں کچھ ایسے عظیم شخصیتوں کو جانتا ہوں ، کہ اگر کہیں پر کوئی ایسا کام انجام پائے جس میں حرام کا شبہہ پایا جاتا ہو ، تو وہ اس جگہ سے اٹھ کر چلا جاتا ہے ، برے اور نازیبا الفاظ  کہ بعض فقہاء حتی کہ ان الفاظ کو زبان پر لانے  کے بارے میں حرام ہونے کا فتوا دیے ہیں ؛ کہ افسوس کی بات ہے آج ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے ، میں نے کچھ ایسے علماء کو بزرگان کو بھی دیکھا ہے کہ اگر کسی اجتماع میں ہوں اور وہ الفاظ کہ شاید نوے فیصد علماء اسے کے استعمال کوحرام نہیں جانتے ہیں ، لیکن چونکہ بعض اسے حرام ہونے کا شبہہ کرتے ہیں لہذا ایسے اجتماع سے نکل جاتے ہیں ۔

ويَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ ويَأْتَمِرُونَ بِه ويَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ" لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اسی پر عمل کرتے ہیں"اہل ذکر عدالت کا حکم دیتا ہے ، اور وہ خود بھی اسی پر عمل کرتے ہیں ، نہی از منکر کرتے ہیں اور وہ خود بھی منکر ات کو ترک کرتے ہیں ، ويَتَنَاهَوْنَ عَنْه فَكَأَنَّمَا قَطَعُوا الدُّنْيَا إِلَى الآخِرَةِ وهُمْ فِيهَا" برائیوں سے روکتے ہیں اور خودبھی باز رہتے ہیں ، گویا انہوں نے دنیا میں رہ کرآخرت تک کا فاصلہ طے کرلیا ہے "اہل ذکر ایسے لوگ ہیں کہ گویا دنیا سے گزر گئے ہیں اور آخرت کی طرف چلے گئے ہیں ؛ اور گویا ابھی آخرت میں زندگی گزار رہے ہیں ، فَشَاهَدُوا مَا وَرَاءَ ذَلِكَ" اور پس پردۂ دنیا جو کچھ ہے سب دیکھ لیا ہے " دنیا کے بعد والی چیزوں کو دیکھ رہا ہے ، فَكَأَنَّمَا اطَّلَعُوا غُيُوبَ أَهْلِ الْبَرْزَخِ فِي طُولِ الإِقَامَةِ فِيه" اور گویاکہ انہوں نے برزخ کے طویل و عریض زمانہ کے مخفی حالات پر اطلاع حاصل کرلی ہے "جو چیز اہل برزخ کے لئے پیش آتے ہیں جسے عام طور پر لوگ نہیں جانتے اہل ذکر ان کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ، اور اہل برزخ کے عیوب سے آگاہ ہیں ،خدا کا ذکر انسان کو اس مقام تک لے آتا ہے ، البتہ ممکن ہے بعض لوگ ایسی چیزوں کا دعوا کرے لیکن جو شخص ایسے درجہ پر فائز ہوتے ہیں وہ ممکن ہی نہیں ہے اپنے نزدیک ترین شخص کو بھی اس بارے میں کوئی چیز بیان کرے ؛ چونکہ وہ خود جانتا ہے اگر اس مرتبہ کو اظہار کرے تو اس سے چھین لیا جائے گا ، لیکن یہ ممکن ہے کہ انسان بعض شخصیات کے بارے میں گمان کرلے اور وہ خود اس بارے میں کچھ بیان نہ کرے ، بہر حال ذکر خدا انسان کو اس درجہ تک اوپر لے جاتا ہے ۔

ہم خود اپنے بارے میں دیکھیں کہ ہم اہل ذکر ہیں یا نہیں ہیں ؟ ہم نے دنیا کو پیچھے چھوڑا ہے اور ابھی ہم آخرت میں ہیں اور اہل برزخ اور ان کے عیوب کو ہم دیکھ رہے ہیں یا نہیں ؟ یا نہیں ؛ ہم ابھی بہت پیچھے ہیں ، ہمیں چاہئے کہ اپنی نمازوں اور عبادات میں خدا سے یہی تقاضا کرے کہ خدا ہمیں اہل ذکر میں سے قرار دیں ، اس بارے میں اصرار کرنا چاہئے ، کیسے ہم دنیاوی کاموں میں دس مرتبہ ، سومرتبہ ، ہزار مرتبہ خدا سے تقاضا کرتے ہیں اور کبھی تھکتے نہیں ہیں ؛ یہاں پر بھی ایسا ہی ہونا چاہئے ، ابھی تک ہم نے خدا سے کتنی مرتبہ یہ دعا کی ہے کہ ہمیں اہل ذکر میں سے قرار دیں ؟ خدا سے کتنا اصرار اور التماس کیا ہے ؟ اہل ذکر نہ ہونے کی وجہ سے  ہمارے اندرنقصان میں ہونے اور ضرر ہونے کا کتنا احساس کیا ہے ؟کیا ہم نے سمجھا بھی ہے کہ کتنے نقصان میں ہیں ؟ اہل برزخ کے عیوب کے بارے میں اطلاع پیدا کرنا اہل ذکر کے آثار میں سے ایک ہے ، ایسا نہیں ہے کہ خود اس میں کوئی ذاتی اہمیت ہو ایسا نہیں ہے ، بلکہ جب اہل ذکر ہو تو خودبخود یہ چیزیں بھی ہیں ، کہ اہل ذکر کی روحانی قدرت اس قدر وسیع ہو جاتی ہے کہ ان کی زندگی کا دائرہ صرف عالم دنیا سے محدود نہیں ہوتا ،بلکہ دوسری عالم تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔

 نہج البلاغہ خطبہ 222 صفحہ 449

 

 

برچسب ها :

اہل ذکر امیر المومنین نہج البلاغہ

نظری ثبت نشده است .