شیعہ اعتقاد کے مطابق آئمہ علیہم السلام کی نسبت نقد اور انتقاد معنی نہیں رکھتا

18 April 2024

16:29

۲,۷۸۲

خبر کا خلاصہ :
شیعہ اور سنی مفسرین کے تصریح کے مطابق چونکہ خداوند متعالی نے رسول اور اولو الامر کی اطاعت کو اپنے اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے ، تو جس طرح خداوندمتعالی کی اطاعت بغیر کسی شرط اور قید کے مطلق طورپر واجب ہے ، رسول اور اولو الامر کی اطاعت بھی مطلق طور پر واجب ہے ،اور جس کی اطاعت مطلق طور پر بغیر کسی شرط اور قید کے واجب ہو ، اس کا خطاء اور گناہ دونوں سے معصوم ہونا ضروری ہے۔
آخرین رویداد ها

بسم الله الرحمن الرحيم

 الحمد لله رب العالمين و صلی الله علی سيدنا محمد و آله الطاهرين
و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین من الآن إلی قیام یوم الدین


درس شروع کرنے سے پہلے ایک مطلب کوبیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

حال ہی میں ہمارے ملک کے صدر سے منسوب کچھ باتیں بیان ہو رہی ہے اور  سوشل میڈیا میں بھی گردش کر رہی ہے : کہ ہم سب  پر انتقاد اور اعتراض  کر سکتے ہیں اور ہونا بھی چاہئے ، جس کے بعد افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی بات کو حضرات معصومین   علیہم السلام سے بھی نسبت دیتے ہیں اور بہت ہی افسوس حتی کہ وجود مبارک پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک بھی نسبت دیتے ہیں ،اور وہ بھی روایات سے استدلال کرتے ہوئے اس معنی کو بیان کیا ہے ۔

ان کا اصلی مقصد کیا ہے ؟ آیا یہی جو ظاہر ہے وہی مراد ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں ہم کچھ نہیں بولتے ہیں ، ممکن ہے ان کا اصلی مقصد کچھ اور معنی ہو ، لیکن ان کے بات کے ظاہر سے جو مطلب واضح ہوتا ہے وہ پورے کا پورا باطل اور غلط بات ہے ۔

انبیاء کی عصمت کا مسئلہ کہ جس کا بلند ترین درجہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متعلق ہے ، اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام کی عصمت جو قرآن کریم کی متعدد آیات سے استفادہ ہوتا ہے ثابت ہے ۔

انہیں آیات میں سے ایک مشہور آیت یہ آیت کریمہ ہے ؛أعوذ بالله من الشيطان الرجيم«أَطيعُوا اللهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم».

 شیعہ اور سنی مفسرین  کے تصریح کے مطابق خصوصاً فخر رازی کہتا ہے چونکہ خداوند متعالی نے رسول اور اولو الامر کی اطاعت کو اپنے اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے ، تو جس طرح خداوندمتعالی کی اطاعت بغیر کسی شرط اور قید کے مطلق طورپر واجب ہے ، رسول اور اولو الامر کی اطاعت بھی مطلق طور پر واجب ہے ،اور جس کی اطاعت مطلق طور پر بغیر کسی شرط اور قید کے واجب ہو ، اس کا خطاء اور گناہ دونوں سے معصوم ہونا ضروری ہے، یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ بتایا جائے کہ ہمارے پاس دلیل ہے کہ یہ حضرات گناہ نہیں کرتے تھے ، جی نہیں ! بلکہ دونوں لحاظ سے معصوم ہونا چاہئے خطاء سے بھی اور گناہ سے بھی ۔

البتہ فخر رازی اولو الامر کے معنی کے بارے میں مشکل میں پڑ جاتا ہے ، چونکہ اگر اس سے مراد حکام مسلمین بتائے ، تو معلوم ہے کہ ان میں سے اکثر ظلم و فسق و فجور کرنے والے اور غلطی کرنے والے ہیں ، لہذا اسے اہل حل و عقد معنی کیا ہے اور وہ اپنی جگہ یہ سوچتا ہے کہ اہل حل و عقد غلطی نہیں کرتے ، لیکن یہ لوگ بھی یقینا غلطی کرتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ کہا جائے اہل حل و عقد غلطی نہیں کرتے ہیں۔

لیکن شیعہ کے نزدیک اولو الامر سے مراد آئمہ معصومین علیہم السلام  ہیں کہ جن کا مصادیق محدود اور معین ہے، لہذا صراحت کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ آئمہ علیہم السلام، معصوم ہیں ، اور یہ ایک واضح اور آشکار قرآنی مسئلہ ہے ۔

ہماری بات یہ ہے کہ جس ملاک کے مطابق خداوند متعالی کے بارے میں نقد و انتقاد قابل تصور نہیں ہے ، اگر یہ کہا جا سکے کہ خدا  پر نقد و انتقاد کیا جا سکتا ہے تو پھر وہ خدا ، خدا نہیں ہے ، اسی طرح اس ملاک اور معیار کے مطابق کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام بھی خدا کے حجت ہیں ، اور ان کی اطاعت مطلقہ سب پر واجب ہے ، لہذا ان حضرات پر بھی نقد و انتقاد نہیں کر سکتے ۔

انتقاد وہاں پر کیا جا سکتا ہے جہاں پر غلطی اور اشتباہ کا خطر موجود ہو ، اور ان حضرات کے بارے میں غلطی کی تصور اشتباہ ہے ۔

البتہ عصمت کی بحث میں ایک بہت ہی اہم بحث ، علم آئمہ علیہم السلام کا بحث ہے  کہ قرآن کریم کی آیات ، آ‏ئمہ علیہم السلام نامحدود علم  نہیں بلکہ ایک وسیع  اور بشری علوم سے ما فوق علم رکھنے پر دلالت کرتی ہیں، اور یہ بھی آئمہ اطہار علیہم السلام کے عصمت پر  بہت ہی واضح دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔

لہذا شیعہ اعتقادی مبانی کے مطابق ، آئمہ اطہار علیہم السلام کی نسبت نقد اور انتقاد کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے ، اگر انتقاد ہو جاتا ہے تو پھر وہ امام نہیں رہے گا ، اگر انتقاد ہوتا ہے تو پھر خداوند متعال کی حجت نہیں ہے ، اس کے بعد ان کی اطاعت مطلقہ واجب نہیں ہے ، چونکہ انتقاد کرنے والا یہ بتانا چاہتا ہے کہ آپ نے غلطی کی ہے اور میرے اوپر ضروری نہیں ہے کہ اس بارے میں آپ کی اطاعت کروں ، جس کے بعد امام کا اطاعت مطلقہ ہونا ختم ہو جاتا ہے ۔

صدر محترم نے اس جملہ کو بیان کیا ہے کہ کبھی کبھار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ مطالب بیان فرماتے ، جس کے بعد اصحاب آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم )سے سوال کرتے تھے أمِن الله أم من رسوله»؟اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تو اس کے بعد وہ اپنے آپ کو اس پر اشکال کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ، لیکن اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے : یہ میری طرف سے ہے ، تو وہاں پر شاید اعتراض اور اشکال کر لیتے ، پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے آپ پر انتقاد اور اعتراض کرنے کا حق دیتے تھے ۔

ان کی یہ بات بہت نا سنجیدہ بات ہے کیونکہ اگر آپ تاریخ اور روایات کی طرف مراجعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ «أمن الله أم من رسوله»صرف ایک جگہ پر بیان ہوا ہے ، تاریخ میں کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مطلب کو بیان فرمائے جس کے بعد اصحاب ان سے یہ سوال کیا ہو۔

صرف روز غدیر میں جب امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا ، جس کے بعد اصحاب سے فرمائے :«سَلِّمُوا عَلَى عَلِيٍّ بِإِمْرَةِ الْمُؤْمِنِين»،لوگوں کے ذمہ پر ایک ذمہ داری ڈال دی کہ وہ سب علی بن ابی طالب(علیہ السلام ) کو «السلام عليك يا اميرالمؤمنين» کہہ کر پکارے ۔

یہ بات پہلے ، دوسرے اور کچھ دوسرے لوگوں کے لئے بہت سخت تھا کہ وہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کو «السلام عليك يا اميرالمؤمنين»،بولے ، لہذا انہوں نے  اس سوال کو بیان کیا ہے،لیکن اس سوال کے بیان کرنے سے یہ استفادہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگ مخالفت کرنا چاہتے تھے ، ممکن ہے اس کی یوں توجیہ کرے کہ اگر خدا کی طرف سے ہے تو اس بارے میں زیادہ توجہ کریں گے ، اور سوال بھی اس موضوع کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے تھا ، ان کے جواب میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی جو فرمایا بہت ہی عجیب ہے کہ فرمایا : «من الله و من رسوله»،یعنی یہ ان موارد میں سے ہے  جو خدا کی طرف سے بھی واجب ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے بھی واجب ہے ، ایک ایسا حکم ہے جو دونوں طرف سے ہے ۔

یہ سوال اس وجہ سےتھا وگرنہ کہاں سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ فرماتے کہ میں یہ حکم دے رہاہوں ، تو اس کے بعد وہ لوگ یہ بولے پھر ہم مل بیٹھ کر  اس کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ کیوں ایسا ہے ؟! ایسی کوئی بات ہی نہیں تھی، جب لوگ کسی کو اپنا نبی اور رسول خاتم قطعی اور مسلم طور پر اپنا پیغمبر مانتے ہیں ، تو اس کے بعد پھر اس پر کوئی اعتراض یا انتقاد نہیں کرتے  تھے۔

جی ہاں! کچھ افراد تھے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مانتے ہی نہیں تھے ، ان لوگوں نے تو اس سے بھی بہت بڑی بڑی باتیں کی ہیں ، لیکن مومنین  طول تاریخ میں کبھی بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا آئمہ اطہار علیہم السلام پر نقد یا انتقاد نہیں کیے ہیں ۔

البتہ سوال کرتے تھے، مشورت ہوتے تھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی لوگوں کو فرصت دیتے تھے ، تا کہ لوگ اپنے عقول کو بھی سامنے لائے ، امیر المومنین علیہ السلام فرماتے تھے : اگر کوئی حق بات ذہن میں آتی ہے تو اسے بیان کریں ؛«فَلَا تَكُفُّواعَنْ مَقَالَةٍ بِحَقٍّ أَوْمَشُورَةٍ بِعَدْلٍ فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ وَلَاآمَنُ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِي إِلَّاأَنْ يَكْفِيَ اللَّهُ مِنْ نَفْسِي مَا هُوَ أَمْلَكُ بِهِ مِنِّي‏»۔

بہر حال ہمارے آئمہ اطہار علیہم السلام  لوگوں کے لئے فرصت دیتے تھے تا کہ ہر کوئی اظہار نظر  کرے، لیکن اس کا معنی یہ نہیں تھا کہ ان پر انتقاد کا دورازہ کھول لیں ، یہ جملہ «فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ»،کہ نہج البلاغہ کے خطبہ 216 میں ہے ، یہ حضرت یوسف کی اس واقعہ کی طرح ہے کہ فرمایا :«لَوْ لا أَنْ رَأى‏ بُرْهانَ رَبِّه»،اگر بس میں خود ہو ، اور انسانی نظر سے مجھے دیکھیں ، تو خطاء کا مسئلہ ہے لیکن فرماتے ہیں :«إِلَّا أَنْ يَكْفِيَ اللَّهُ مِنْ نَفْسِي مَا هُوَ أَمْلَكُ بِهِ مِنِّي»، لیکن خدا کافی ہے ، حضرت کے کلام میں عصمت اور وہی«برهان رب»،صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

کچھ دنوں پہلے بیان ہوا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے خطبہ 92 میں فرمایا :«وَ اعْلَمُوا أَنِّي إِنْ أَجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بِكُمْ مَا أَعْلَمُ وَلَمْ أُصْغِ إِلَى قَوْلِ الْقَائِلِ وَعَتْبِ الْعَاتِبِ وَإِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ وَلَعَلِّي أَسْمَعُكُمْ وَ أَطْوَعُكُمْ لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ وَ أَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيرا»،"یاد رکھو کہ اگر میں نے بیعت کی دعوت کو قبول کرلیا تو تمہیں اپنے علم ہی کے راستے پر چلاوں گا اور کسی کی کوئی بات یا سرزنش نہیں سنوں گا ۔لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمہارے ہی ایک فرد کی طرح زندگی گزاروں گا بلکہ شائد تم سب سے زیادہ تمہارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں۔میں تمہارے لئے وزیر کی حیثیت سے امیر کی بہ نسبت زیادہ بہتر رہوں گا۔" لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس جملہ کا لوگوں نے یہ معنی لیا کہ امامت اور خلافت آئمہ علیہم السلام میں لوگوں کا ووٹ بھی دخیل ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔

پہلی بات یہ ہے :کہ یہ عبارت جسے حضرت نے فرمایا ہے وَاعْلَمُوا أَنِّي إِنْ أَجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بِكُمْ مَا أَعْلَمُ»؛ آپ  علیہ السلام نے فرمایا اگر میں حاکم بنا تو یہ نہ سوچیں کہ میں بھی گذشتہ خلفاء کی طرح امور کو چلاوں گا ،گذشتہ خلفاء بہت ساری جگہوں پر   ان کا معیار اور ملاک قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت نہیں تھے،وہ لوگ خود بھی بتاتے تھے ہم بعض جگہوں پر غیر قرآن اور سنت  پر عمل کرتے ہیں ، گذشتہ خلفاء اپنے منصب کو بچانے کی خاطر غیر صالح افراد کو لاتے تھے اور انہیں حاکم قرار دیتے تھے ۔

امیر المومین علیہ السلام سے فرمایا:«وَلَمْ أُصْغِ إِلَى قَوْلِ الْقَائِلِ وَعَتْبِ الْعَاتِبِ»، میں ایسے کاموں کو نہیں کروں گا اور نہ ہی کسی کی بات سن لوں گا ، بلکہ میں اپنے علم کے مطابق عمل کروں گا ۔

خود یہی  کلام ان باتوں کے رد میں ہے کہ کوئی حضرت پر نقد و انتقاد کرے ،چونکہ فرما رہے ہیں  میں خود ملاک اور معیار ہوں ۔

جس کے بعد فرماتے ہیں :«وَ إِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ»،اگر مجھے چھوڑ دیا اور میری اطاعت نہیں کی جو کہ تمہاری سب سے پہلی ذمہ داری ہے ، تو موضوع خود بخود ختم ہو جاتا ہے ، اور جب امیر المومنین علیہ السلام کے امامت کو قبول ہی نہ کرے، دوسرے  کے ناحق ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے ، سب کے سب ناحق ہیں ، البتہ اس ناحق میں جس کسی کو اکثر لوگ انتخاب کرے ، آپ فرماتا ہے میں بھی تمہارے انتخاب کی آواز کو سنوں گا ، لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے ان کی اقتداء کی ہو ۔

آپ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا ہےکہ تم جس کو انتخاب کرے ، میں بھی اسی کو قبول کروں گا ، بلکہ فرماتا ہے :«وَ إِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ وَلَعَلِّي أَسْمَعُكُمْ وَأَطْوَعُكُمْ لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ»بلکہ «لعلّي»،سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی غلط بات کر لی تو میں نہیں سنوں گا ۔

بہر حال ؛ یہ مسئلہ ہمارے اعتقادی مبانی میں بہت ہی واضح ہے ، اور یہ بیان بھی ہونا چاہئے ۔

دینی مسائل کو بیان کرتے وقت ، ہمیں مختلف شخصیات اور افراد کا لحاظ رکھنا صحیح نہیں ہے ، بلکہ خدا کو حاضر و ناظر رکھ کر کام کرے ، اسی طرح دوسرا پہلو یہ بھی نہ ہو کہ ایسے مواقع پر دوسروں کو ذلیل کرے ، اگر ایسا کر لیا تو خود ہمارے اوپر ہزاروں سے زیادہ ایسے اعتراضات ہو سکتے ہیں ۔

حوزہ علمیہ میں ہمیں اس طرح سے بات کرنی چاہئے کہ جب یہ بات اوپر تک پہنچ جائے تو بولے ، جی ہاں ! ایک عالم دین ، ایک مدرس ، ایک حوزہ کے استاد شیعہ کی دفاع میں یہ باتیں کی ہے ، وہ یہ چاہتا ہے کہ یہ غلط عقیدہ جوانوں کے ذہن میں رسوخ نہ کرے جائے ۔

مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی شخص نے بتایا ہے کہ قرآن کریم صرف گناہ کی عصمت کے بارے میں ہے لیکن انبیاء اور آئمہ غلطی کی نسبت معصوم نہیں ہیں، اس بات سے عوام کے ذہنوں میں خلفشار پیدا ہو سکتا ہے ،خصوصا ہمارے یونیورسٹی کے طالب علموں کے ذہنوں میں، دین کی باتوں کو لوگوں تک پہنچانا ہماری سب سے پہلی ذمہ داری ہے ۔


برچسب ها :